January 8, 2011

Lost sanity (Urdu blog post)

سلمان تاثیر، قائم علی شاہ اور ماروی میمن کے ساتھ.
سلمان تاثیر کے انہونی قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال نے ہر پاکستانی کو اپنی گرفت میں گھیر لیا ہے. یہ کہنا غلط نہ ہوگا کے سلمان تاثیر کے قتل نے اس ملک اور اس میں بسنے والے شہریوں کو ایک عجیب کیفیت میں ڈال دیا ہے. کہیں پر تو لوگ گوورنر پنجاب کی موت پر خوشیاں بانٹ رہے ہیں اور بھنگڑے ڈال رہے ہیں، تو کہیں پر لوگ افسوس اور غمو رنج کا اظہار کر رہے ہیں. ایسی صورت حال میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ سلمان تاثیر کی موت نے پاکستانی قوم کی جنونیت پر سے پردہ اٹھا دیا ہے. کیا یہی چہرہ ہم دنیا کو دکھانا چاہتے تھے؟ کے ہمارے اندر  کسی کے لیے صبر نہیں ہے؟ کے ہم کسی کی بات کو برداشت نہیں کر سکتے؟ آخر سلمان تاثیر کا ایسا کیا گناہ تھا، جو ممتاز قادری نے یہ سوچ لیا کے صرف بندوق سے چلنے والی گولی ہی اس جرم کی سزا لے سکتی ہے؟

اگر آج کا اخبار کھول کر پڑھا جائے، تو آپکو معلوم ہوگا کے ووہی وکیل جو ہر روز سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آتے تھے کیوں کے وہ آئین اور قانون کی بالا دستی چاہتے تھے، آج ممتاز قادری کے جرم کو مٹانے میں لگے ہوے ہیں؛ یہ ووہی وکلا ہیں جو افتخار محمّد چودھری کو انکی کرسی واپس دلانے میں سارا سارا دن سڑکوں پر اپنی برہمی کا اظہر کرتے تھے. تو پھر پوچھنے کی بات تو یہ کے ان کے اصولوں کا کیا بنا جن کا یہ حوالہ دیتے تھے؟ یہ کیسے وکیل ہیں جو مقتول (یا شہید) کے بجائے، قاتل کے ساتھ جا کر کھڑے ہو گئے؟ کچھ دن پہلے جب میں بی بی سی وورلڈ سروس کے ایک پروگرام میں بطور مہمان شریک ہوا تو مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کے کس قدر نفرت اور بربادی ہمارے معاشرے میں پھیل چکی ہے. مجھے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کے بہت سے ایسے افراد جن کو ہم پڑھا لکھا اور عقلمند سمجھتے ہیں، اصل میں لا علمی اور منافقت کا پتلا ہیں. 

بےشرمی کی تو یہ انتہا ہے کے کھلم کھلا یہ لوگ کسی کی موت پر جشن اور خوشیاں منا رہے ہیں. مجھے یقین ہے کے ایسے ہی بہت سے لوگ یہ بھی کہیں گے کہ یہ انکا ذاتی منظر ہے اور وہ جشن اور خوشی منانے کا پورا حق رکھتے ہیں. لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہی منظر جب باہر دنیا دیکھتی ہے، اور جب خاص طور پر جب اسکو یہ پتا چلتا ہے کے یہ پاکستانی قوم ایک ایسے شخص کی موت پر خوشی منا رہی ہے جس نے کوئی غلط بات نہیں کی تو وہ ایک پریشانی اور حیران کن سی کیفیت میں چلی جاتی ہے کے یہ کیسے لوگ ہیں جو کسی کی موت کو موت ہے نہیں سمجھتے؟

اگر ہم سلمان تاثیر کے دئیے گئے بیانات کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کے جناب نے صرف یہ کہنے کی غلطی کر دی کے آسیہ بیبی بیگناہ ہے، اور اسے جینے کا حق ہے. ایک بےزبان، لاچار، اور کمزور کے لئے آواز اٹھانا دراصل وہ گھنونا جرم تھا جس نے ہماری مذہبی جماعتوں کی صفوں میں آگ لگا دی. وہ کہنے لگے تاثیر صاحب کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے؛ انکو ناموس رسالت قانون کے بارے میں کوئی بیان نہیں دینا چاہیے؛ انکو ایک لاچار اور بےبس عورت کے حق میں آواز نہیں اٹھانی چاہیے. ایک انسانی قانون، جس کا ١٩٨٦ سے پہلے پاکستان کے آئین میں کوئی ذکر نہیں ہے، اس میں اصلاحاتی ترامیم کرنے پر زور دینا کیوں کے یہ قانون مظلوم اور بےقصور لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے، سلمان تاثیر کی سب سے بڑی غلطی تھی. لوگ کہتے ہیں کے جناب کو ایسی بات ہی نہیں کرنی چاہیے تھی جس کے بارے میں انکو کوئی علم نہیں تھا، اور کئی مبصرین-و-مفکرین اسی بات کو اپنی دلیل کا اہم نقطہ بنا کر پیش کرتے ہیں، اور یہ تصور پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کے سلمان تاثیر کی موت دراصل انکی ان بیوقوفانہ باتوں کا نتیجہ ہے. 

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں دماغ کو استعمال کرنے والوں کی تعداد منفی نمبروں میں چلی گئی ہے. سلمان تاثیر کا قاتل اس ملک میں ایک ہیرو بن گیا ہے. ایک قاتل کے دفاع کے لئے وکیلوں کی بھرمار لگی ہوئی ہے. بےشرمی کے سارے پیمانے لبریز ہو کر رہ گئے ہیں. وہ میڈیا جس کو ہم آزاد اور غیر جانبدارانہ تصور کرتے ہیں، ڈھکے چھپے الفاظ میں ممتاز حسین قادری کے گھنونے فعل کی حمایت میں مصروف ہے. سلمان تاثیر کے قاتل سے کیا بدلہ لیں گے، وزیر آزم نے تو پہلے ہی سے یہ فرما دیا ہے کے ناموس رسالت قانون کو زیر بحث نہیں لایا جائے گا.

ضرورت اس بات کی ہے ایک کھلا اور سنجیدہ مناظرہ کیا جائے تاکے وہ قوتیں جو پاکستان میں فرقوارانہ انتہا پسندی اور شدت پسندی کو جنم دیتی ہیں، انھیں منظر عام پر لا کر بے نقاب کیا جا سکے اور ہمدردی، امن اور بھائی چارے کی فضا کو قائم کیا جا سکے. اختلاف رائے کے حق کو تسلیم کیا جائے اور جیو اور جینے دو کے عقیدے پر چلا جا سکے. پاکستان میں لاثانی اور فرقاواریت کی طاقتوں کو شکست دی جا سکے. ایک لا علمی کے پردے کے پیچھے چھپ جانے سے ہمارے مسائل ختم نہیں ہوں گے.